اپنوں کے ملبوس میں جذبوں کے خریداروں نے
مجھے راستے کا پتھر کیا میرے غمگُساروں نے
آشنائی نہیں تھی مجھے مزاجِ آتش ِعشق سے
دل کو ہی جلا دیا میرے، اُلفت کے شراروں نے
تُو نے بھی اِسی سوچ میں ہر ظُلم روا رکھا مجھ پر
کہاں جانا ہے تیری محفل سے درد کے ماروں نے
عہد ِوفا چاہتے ہیں سر ِراہ چھوڑ کے جانے والے
نایاب محبت کو رُسوا کیا ہے دُہرے میعاروں نے
حوصلہ ہی نہیں دل میں راہِ دُشوار پہ چلنے کا
کبھی پاؤں پہ کھڑا ہونے دیا نہیں سہاروں نے
گُل وخُوشبو سے اِکبار میرے در و بام مزیّن کر کے
کیوں رُخ موڑ لیے میرے گُلشن سے بہاروں نے
ہمیں شمار کرتے ہو یا گِنتے ہو دُکھ درد اپنے
فرط ِحیرت سے مجھے پُوچھا شبِ ہجر کے تاروں نے
دل کو بھلا لگتا تھا لہروں کی آغوش میں رہنا
ساحل کی طرف آیا تو مجھے روک لیا کناروں نے
میری جیت کہیں رُخِ یار کا تبسم ہی نہ لے اُڑے
ڈر سے رِشتہ بنا رکھا ہے مجھ سے میری ہاروں نے
اب کے جاں لے لو یا عطا کر دو اُلفت کا سائباں
اور کیا مانگنا ہے رضا بے یارو مددگاروں نے