نامکمل خواب کی تکمیل ادھوری رہ گئی
کہتے کہتے اپنی داستاں ادھوری رہ گئی
کل جدائی کے تصور سے ہراساں رہتی تھی
آج وہ درد جدائی ہنسے ہنستے سہہ گئی
ایک بوسیدہ عمارت جو کبھی مضبوط تھی
وقت کی ظالم ضرب سے آج وہ بھی ڈھے گئی
برف کے مانند جم کر رہ گئی تھی زندگی
پر تو خورشید سے ہی پانی بن کر بہہ گئی
عظمٰی یوں محسوس ہوتا ہے ہماری زندگی
صحرا نوردوں کے لئے سراب بن کر رہ گئی