اپنی دنیا کو خود تباہ کئے
اک زمانہ ہوا ہے، آہ کئے
میری بربادیاں پرانی ہیں
وقت گزرا ہے، رسم و راہ کئے
انگلیاں اٹھ رہی ہیں کیوں پم پر؟
لوگ بیٹھے ہیں اشتباہ کئے
حسن کی بات تھی جدا سب سے
ہم چلے عشق کو گواہ کئے
ان کو پاس وفا نہیں ورنہ
اب بھی بیٹھے ہیں ہم نباہ کئے
قصہء شوق کچھ رقم نہ ہوا
عمر بھر بس ورق سیاہ کئے
چل پڑے کس طرف کو وہ رومی
آج شرمندہ مہر و ماہ کئے