اپنی پلکوں کو ذرا دیر بھگو لیتی ہوں
یاد آتی ہے مجھے تیری تو رو لیتی ہوں
یہ سبھی زخم تو ترے ہی عطا کردہ ہیں
انِ کو اشکوں سے میں ہر روز ہی دھو لیتی ہوں
تم بھی اب ویسے نہیں، جیسے کہ تم پہلے تھے
خود کو وادی میں تری یاد کے کھو لیتی ہوں
اپنے اظہار کو بے بس ہے محبت اتنی
اس کو الفاظ کے دامن میں سمو لیتی ہوں
تیرے خوابوں کی امیدوں کو لیے ،تکیہ پر
رکھ کےسر وشمہ تصور میں ہی سو لیتی ہوں