اپنے آپ سے غافل اک انسان
چلا جا رہا تھا اجنبی راستوں پر
قدموں کو آوارہ کئے ہوئے
دل میں اٹھے طوفان کو سنبھال کر
آنکھوں کو صحرا کئے ہوئے
نجانے کس بات پر خود سے روٹھا ہوا
وہ انسان
اپنے ہی ہاتھوں سے
اپنی ہی لاش گھسیٹ رہا ہے
خود کو ہی بے مراد کر رہا ہے