اپنے دیس کی گرد بھی اب رحمت لگے
پردیس میں وطن کی ہر شے رحمت لگے
وہ بارش سے سڑکوں کا ندی بننا
تپتی دھوپ میں چھاؤں رحمت لگے
روزی کی تلاش میں پردیسی ہوئے
پردیس میں وطن کی یاد رحمت لگے
ہو جو پاس ُاس کی قدر نہ جاننے
پروآنے کو شمع رحمت لگے
افراتفری میں عجب تماشا بھرپا
آج مومن کو دولت رحمت لگے
دعا گو ہیں نمازی پرہیزگار سارے
جھوٹ کی کمائی اِن کو رحمت لگے
خرم انسانیت کے نام حیثیت کا پرچار کریں
نوکر کے نام پہ غلام ان کو رحمت لگے