اپنے لبوں کو دشمن اظہار مت بنا
سچے ہیں جو انھیں گنہگار مت بنا
جتنے بھی الفاظ ہیں وہ مہکتے گلاب ہیں
لہجے کے فرق سے انھیں تلوار مت بنا
الزام کچھ تو گردشءایام کو بھی دے
اپنے ہر ایک غم کو غمءیار مت بنا
ہر ایک کے لئے کھلا مت رکھ اسے
یہ دل اک گھر ہے اسے بازار مت بنا