اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں

Poet: By: AAZAD ALI, HUB CHOWKI

اپنے ماضی کے تصور سے ہراساں ہوں میں
اپنے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے مجھے
اپنی بے کار تمناؤں پہ شرمندہ ہوں
اپنی بے سود امیدوں پہ ندامت ہے مجھے

میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
مرا ماضی مری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری امیدوں کا حاصل مری کاوش کا صلہ
ایک بے نام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں

کتنی بے کار امیدوں کا سہارا لے کر
میں نے ایوان سجائے تھے کسی کی خاطر
کتنی بے ربط تمناوں کے مبہم خاکے
اپنے خوابوں میں بسائے تھے کسی کی خاطر

مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
مجھ کو کہنے دو کہ میں نے انہیں چاہا ہی نہیں
اور وہ مست نگاہیں جو مجھے بھول گئیں
میں ان مست نگاہوں کو سرا ہا ہی نہیں

مجھ کو کہنے دو کہ میں آج بھی جی سکتا ہوں
عشق ناکام سہی زندگی ناکام نہیں
ان کو اپنانے کی خواہش نہیں پانے کی طلب
شوق بے کار سہی سعئ غم انجام نہیں

وہی گیسو وہی نظریں وہی عارض وہی جسم
میں جو چاہوں تو مجھے اور بھی مل سکتے ہیں
وہ کنول جن کو کبھی ان کے لئے کھلنا تھا
ان کی نظروں سے بہت دور بھی کھل سکتے ہی

Rate it:
Views: 1341
03 Sep, 2012