اپنے معصوم گلابوں کی مہک سے بے خود
یاد جب انکی ستائے تو مچل جاتا ہوں
وہ جو لوری تھی اسے کھو دیا مدت پہلے
انکی آواز جو سن لوں تو بہل جاتا ہوں
آنکھ پھر آتی ہے راتوں کو یہاں پر اکثر
دور آنسو میں بہانے کو نکل جاتا ہوں
مجھ کو ہنسنا بھی یہاں پڑتا ہے دنیا کے لیئے
کس قدر حسن مہارت سے بدل جاتا ہوں
وہ جو ناراض کبھی مجھ سے اشہر ہو جائیں
کانپ اٹھتا ہوں میں اندر سے دہل جاتا ہوں