اپنے پہلُو میں وہ غیروں کو بِٹھاتا کیوں ہے
چاہتا جب وہ نہیں مجھ کو جلاتا کیوں ہے
سمجھ آتی نہیں اُس کی انہی باتوں کی مجھے
خُود ہنساتا ہے تو پھر خُود ہی رُلاتا کیوں ہے
کیسے دُوں گا میں زمانے کے سوالوں کے جواب
لوگ پُوچھیں گے کہ وہ تجھ کو ستاتا کیوں ہے
جب بھی اُس شخص کے میں سامنے آ جاتا ہوں
تو وہ چہرے سے نقاب اپنا ہٹاتا کیوں ہے
رات بھر سوچتا رہتا ہوں اِسی بات کو میں
مجھے اُلفت کے ہی قصے وہ سُناتا کیوں ہے
اگر اُس نے میرا نام اِس پہ نہیں لکھا ہے
مجھ سے پھر اپنی ہتھیلی کو چھپاتا کیوں ہے
اُس سے باقرؔ کبھی ناراض جو ہو جاؤں میں
مجھے خوابوں میں وہ رو رو کے مناتا کیوں ہے