اپنے پے بھروسا ھے تو تیرِ نظر کا ڈر کیا
تم جیسا مسیحا ھو تو زخمِ جگر کا ڈر کیا
انجان سی راھوں میں بھٹکے ھوئے راھی کی قسم
محبت میں نا بچھڑیں جو منزل کی ڈگر کا ڈر کیا
ھر لحظہ پریشان کیے جاتی ھے وقت کی تیز روی
محبت میں ھو سکوں تو ڈھلتی عمر کا ڈر کیا
کھلی نظروں کے تیر کھا کے بھی جو زندہ رہ گیا
اُسے پھر با پردہ ناگن کے زھر کا ڈر کیا
اتنے صبر کا پھل بھی راس نا آ سکا ھمیں
اب تیری جفا کے کڑوے ثمر کا ڈر کیا
تیری وفا کے سحر میں ھم قیدوبند ھیں کب سے
اب دو گھونٹ زھرِ جفا کے اثر کا ڈر کیا
جنت سے ھم کو اپنی خواھش نے نکلوا دیا
اب دوزخ میں اُگے خار و شجر کا ڈر کیا