ٹوٹے ہوئے دل میں خوشی اچھی نہیں لگتی
شب ہجر میں تو زندگی بھی اچھی نہیں لگتی
ملیں گے راہ میں تجھے اور بھی بہت سے لوگ
اس جیسی بات مجھے ان میں اچھی نہیں لگتی
دیا ہے درد جس نے وہی دوا دے گا
کسی اور کے مرہم کی بھیک اچھی نہیں لگتی
سب کہتے ہیں کہ بھول جا اسے وہ نہ آئے گا
سب کی یہی بات مجھے اچھی نہیں لگتی
غم میں تیرے گزر چکا ہوتا آصف شائد
مگر تیرے بغیر موت بھی اسے اچھی نہیں لگتی