بے جُرم ہمیں لوگ ٹھکرا دیا کرتے ہیں
وفاوَں کا اسطرح صلہ دیا کرتے ہیں
اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے پاس آجائیں
دور سے ہی بس مسکرا دیا کرتے ہیں
یہ شہر دغابازوں کا ہے خیال رکھنا
یہاں نظروں نظروں میں جلا دیا کرتے ہیں
کبھی حالتِ مسکیں پہ ترس آئے تو
ہلکا سا رُخِ زیبا دکھا دیا کرتے ہیں
جس روپ میں میرا یار خوش رہے
ہم ایسا ہی حلیہ بنا دیا کرتے ہیں
اکثر جس شجر کو حجر پڑتے ہیں
وہی تو شجر میوہ دیا کرتے ہیں
ہماری مثال بھی اس شجر سی ہے جہاں
وہ جتنے بھی ستم کریں ہم بھلا دیا کرتے ہیں