جو درد کے صحرا میں اکیلا بھی بہت ہے
اس کے لئے دیوار کا سایہ بھی بہت ہے
دیکھا نہیں تم نے کبھی تنہائی میں اس کو
اپنوں کی جدائی میں وہ رویا بھی بہت ہے
جس نے کبھی دولت کو دولت نہیں سمجھا ہے
پا یا بھی بہت اس نے کھویا بھی بہت ہے
بیداری ہی بیداری ہے جس کے مقدر میں
وہ نیند میں خوابوں میں سویا بھی بہت ہے