تمہارے بہت ستم تھے ہم پر
اک اور خود پر ستم کر لیا ہم نے
تمہاری مجبوریوں سے تھک ہارکر
خوشی خوشی سمجھوتا کر لیا ہم نے
میری لہجے کی مٹھاس ُبری لگتی تھی نا
چلو لفظوں میں زہر بھر لیا ہم نے
تمہارے خط اور کچھ گلاب
سب کو آج جلانے کا فیصلہ کر لیا ہم نے
جو روتی تھی چاندی رات بھر
ُاسے نیند کی دوائی دے کر ُسلا دیا ہم نے
زمانے میں کہیں تجھے ُرسوا نا کر دوں
تیری محفل میں آنا چھوڑ دیا ہم نے