تختِ دل اس نے چنا پھر راجدھانی کے لیئے
کاہے کی کوزہ گری ہے دارِ فانی کے لیئے
طشتری میں خواب اس نے رکھ کے بھیجے ہیں مجھے
باب وا ہوتے گئے ہیں یادہانی کے لیئے
پھر نجوم و کہکشاں اپنی گزر گاہوں میں ہے
پردۂِ سیمیں، عروجِ ارغوانی کے لیئے
میں نے تو در ماندگی کا سارا قصہ کہہ دیا
اس نے چھوڑا فیصلہ سردارِ ثانی کے لیئے
سب یذیدوں نے یہاں مل کر کیا ہے فیصلہ
کربلہ ترسے گا پھر اک بوند پانی کے لیئے
آگ خیموں کو دکھائی، حکمراں نے کی عطا
جس کو دستارِ فضیلت، گل فشانی کے لیئے
اہتمامِ مے کشی میں وہ کہ کہنہ مشق تھا
تجربہ تھا ماہِ نو کا اصفہانی کے لیئے
پھر سماعت میں پرانی یاد کی پائل بجی
شہ مریدیؔ درد جا گا ایک ہانیؔ کے لیئے
چھید کشتی میں وہی ڈالیں گے حسرتؔ کیا پتہ
جن کو اجرت پر رکھا تھا بادبانی کے لیئے