شب مہتاب و شام زندگانی یاد آتی ہے
مجھے پھر آج اک بھولی کہانی یاد آتی ہے
کسی کا وہ میری خلوت میں شرماتے ہوئے آنا
تلاطم خیز رفتار جوانی یاد آتی ہے
یہ سب کچھ ہے مگر او میری دنیا لوٹنے والے
کبھی تجھ کو میرے دل کی کہانی یاد آتی ہے
مجھے تو تیری زلفوں کا مہکنا یاد آتا ہے
تجھے بھی میرے اشکوں کی روانی یاد آتی ہے