خوشیاں ان پر اپنی لٹاتے رہے
وفا کیا ہے انہیں سمجھاتے رہے
ہم نے انہیں احساس خودی دے دی
وہ ہر موڑ پہ ہمیں آزماتے رہے
دو چار قدم پر منزل کی مسافت تھی
پر انجان رستوں کے مسافر کہلاتے رہے
وہ کبھی تو آشنا ہوں گے ہم سے
دیپ اسی امید میں ہم جلاتے رہے
اس نے دیا قدم قدم پہ زخم جدائی
ہم ان کی قربت کو اور بڑھاتے رہے
کبھی زباں پر نہ لائے حال دل کا ماجرا
قصے ان آنکھوں کو اپنے سناتے رہے