اک تیر ہوں نکل چکا ہوں کمان سے
تخیل ہے بڑھ کے سوچتا ہے گمان سے
یہ بھی کر لوں وہ بھی کر لوں کتنے کام ہیں
کتنے چلے گئے کہتے کہتے جہان سے
سورج ڈوب گیا چاند ستاروں کی چنر اڑھے
حیرت سے تکتا ہے کہتا نہیں کچھ زبان سے
کھیل اپنے آخری منظر میں داخل ہوگیا ہے
پردھ سرکتا جا رھا ہے اطمینان سے
زھر کا پیالہ پی کےکوئی مرتا نہیں ہے
سقراط آج بھی زندہ ہے فلسفے کے جہان میں
شدت_ پیاس نے جب جان لے لی مبین
کھل کے برسا پھر بادل آسمان سے