اک حسیں کی مہربانی ہے
زندگی جو تباہ اپنی ہے
پیار میں خود کشی کا سوچا تھا
میری دل بر نے جان لے لی ہے
کل تری ہو گئی ودائی کیا
شاہراہِ حیات سُونی ہے
جس کو میں نے لہو سے لکھے خط
اُس کے ہاتھوں پہ آج مہندی ہے
اک طرف عشق کا جنازہ ہے
اک طرف اُس کی اُٹھی ڈولی ہے
جس کو بابر سمجھتا تھا منزل
وہلوں کی راہی ہے
وہ عجب منزلوں کی راہی ہے