اک شخص پے ہمیں اعتبار بہت تھا
اور ُاس کا ہم پے اختیار بہت تھا
ڈوب رہا تھا سفینہ منھجدار میں
مسافر کو کنارے کا انتظار بہت تھا
ُاس کی نا سن کر بھی ۔۔ نا ۔۔ نہیں سمجھی
بیوا کوف دل کے ہاتھوں بیمار بہت تھا
شعلہ ۔ شبنم میں کب بدلے گا
دل جاننے کے لیے بیقرار بہت تھا
تیری یادیں سر شام یوں سج سنوار جاتی ہیں
جیسے نئی دلہن کو سنگہار سے پیار بہت تھا
اتنی دوریاں نہ بڑھاوں کے راستے ہی ختم ہو جایئں
کبھی دو قدم تو طہ کرتے ۔ کوئی تمہارا طلبگار بہت تھا