ہم کو تو سر شام تماشا ناں بناؤ
نوچے ہوئے جسموں پہ میلہ ناں لگاؤ
ہر رات دروازے پہ دستک ہیں یہ دیتے
بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو ذرا کاٹ کے لاؤ
جس راہ پہ چلے رند سبھی اس کو اپنائیں
جاتے ہوئے قدموں کے نشا نوں کو مٹاؤ
ہر شب اک دائرے میں یہ جسم ھوا قید
کب پائیں گے رہائی کوئی ہم کو یہ بتاؤ
بازار میں رکھے چہروں پہ ان گنت نگاہیں
ان آنکھوں کی ہوس کو ذرا آئینہ تو دکھاؤ
ہر رات ہیں مرتے جی اٹھتے ہیں صبح کو
ان جلتی ہوئی لاشوں کو دیواروں پہ سجاؤ
اس قفس کی تنہائی میں کوئی آنسو نہ دیکھے
جلتی ہوئی شمع کو ذرا کچھ دیر بجھاؤ
نوچتے ہیں یہ جسموں کو کسی گدھ کی مانند
بکھرے ہوئے ان ٹکڑوں زرا زمین میں دباؤ
کوئی تو اس سر کو آنچل سے ڈھکے گا
دو گھر کی اک چھت دیواریں ناں گراؤ