اک عمر تنہائ کے دیار میں گزری ہے
ہر بات اپنی تیرے اختیار میں گزری ہے
ہیں عمر جنکی فقط پیار میں گزری ہے
پر عمر اپنی تیرے انتظار میں گزری ہے
رات کی سیاہی بھی گواہ اس تنہائ کی
تیری بیوفائ تو میری جاں پے گزری ہے
گر تجھ تلک پہنچے میری صدا دل سے نکلی
تیری بے رخی سے زندگی اداس گزری ہے
ہیں کچھ تنہائ بھی جنکو راس گزری ہے
اپنی تو تنہائ بھی اک عذاب میں گزری ہے