اک قہر تھا جو آکے گزر گیا
Poet: By: Muhammad Saleem Qadri, Karachiصف ماتم ہے ہرگھرمیں کسی کو کسی کا احساس نہیں
کوئی یتیم ہو گیا تو کسی کا بیٹا پاس نہیں
اک چنگاری نے کتنے گلشن جلا ڈالے
یہ کیسی آگ تھی جس نے جلتے چولہے بجا ڈالے
کسی کا مل گیا اور کسی کا پیارا ملا نہیں
غریب ناتواں ہیں ہمیں کسی سے گلہ نہیں
سالگرہ ہے بیٹے کی میرے آنے تک نہیں سوئے گا
کیا معلوم تھا یہ میت سے لپٹ کے روئے گا
ہے انتظار ماں کا وہ ابھی آئے گی
چاہت سے پیار سے مجھے روٹی کھلائے گی
خوشی کتنوں کی عالم سوگ میں بدل گئی
بھیانک آگ تھی زندہ انسانوں کو نگل گئی
مجبوروں کا لاچاروں کا کون سہارا بنے گا
بگڑا مقدر ناجانے کب دوبارہ بنے گا
ہنستا بستا گلشن کیسے بکھر گیا
اک قہر تھا جو آکے گزر گیا
اب تو اٹھو اپنے ذہنوں کو اک نئی سوچ دو
بڑھ کر آگے غمزدوں کے آنسو ہی پونچھ دو
جاگا لو ضمیر پھر اسے کبھی سلانا نہیں
خود کو بھول جانا اس سانحہ کو بھولانا نہیں






