غربت کا وہ آنچل اوڑے گھر سے نکلی لڑکی
زلف پریشان آنکھ ہے حیراں وہ شام بچاتی لڑکی
دشت اور جبر کی راتیں سناٹوں کے پچھلے پھر
بے خبری میں چھت پے جاتی وہ پاگل سی لڑکی
اندازوں کے سب دریچے خوابوں کے وہ محل
ریت کے آنگن میں گھر بناتی وہ سہمی سی لڑکی
ساحل اسکی مٹھی میں آنکھ میں بند سمندر
ہر پرواز پے پر کٹاتی وہ بھولی سی لڑکی
آنگن میں پھیلی دھوپ سے اپنے من کے دیے جلاے
ہر غم کی تصویر کے اندر چہرہ سجاتی لڑکی
مغموم ہے صورت بگڑی مورت اندرسے زخمی ہے
ہر اک بات پے ہنسی لٹاتی وہ دیوانی لڑکی
بھولی بسری یادیں ہیں اب اسکا سرمایہ
ذہن سے سارے خواب مٹاتی وہ سوئی سی لڑکی