توں کب آئے اور چل پڑوں تیرے ساتھ میں
صدیاں بیت گئی ہیں اب تو تیرے اتتظار میں
یہ پھول یہ ہوائیں مجھے پوچھتے ہیں کون ہوں میں
زمانے کے ڈر سے تیرا نام لکھ کر مٹا دیتی ہوں میں
میرا ہمسفر بس اک توں ہے اور تیری ہوں میں
نہیں خواہش محلوں کی مٹی کے گھر میں بھی تیری ہوں میں
جلد لوٹ آؤتم میرے ہاتھوں کی لیکروں میں
اک مسافر کی طرح بیٹھی ہوں تیرے اتظار میں