اک موج ہے جو بہا کر لے جاتی ہے
خیال کی وسعت دور تک جاتی ہے
اکثر خشک موسم کی دوپہر میں
برسات آنکھوں میں اتر آتی ہے
کتاب زندگی کے ورق الٹتے الٹتے
تھکن نیند کی وادی میں لے جاتی ہے
خواب بھی بھنور جیسے ہیں
زندگی ان میں ڈوب جاتی ہے
شب ہجر جیسے اک عمر پر محیط ہو
شب وصال لمحوں میں گزر جاتی ہے