چشم و رخسار کو جلا ڈالا
تم نے اشکوں میں کیا بہا ڈالا
گفتگو ایسی تو نہ تھی تیری
آج لہجے میں تم نے کیا ڈالا
چہچہاتا تھا جو ترے دل میں
وہ پرندہ بھی کیا اُڑا ڈالا
شکریہ تیرے اک تبسم کا
تم نے ظالم ہمیں رُلا ڈالا
یاد رکھنے کے سو بہانے تھے
تم نے اک بات پر بھلا ڈالا
ہم نے اک چاند کے تعاقب میں
اپنا سورج کہیں گنوا ڈالا