وہ جو سوچتی تھی کچھ کر دکھاؤں گی
زمانے کی سوچ کو بدل کر دکھاؤں گی
میں تو پڑھ نہیں سکھی نہ سہی
میں اپنی بیٹی کو خوب پڑھاؤں گی
وہ جو خواب میرے دل میں بسے تھے کبھی
انکی تعبیر اپنی بیٹی کی صورت پاؤں گی
میں ہر رسم ہر رواج سے لڑ جاؤں گی
روایات کی ہر حد ہر دیوار کو پار کر جاؤں گی
سوچا نہ تھادنیا ودل کے بیچ یوں پس جاؤں گی
ہو کہ مجبور دنیا سے دلہن اسے بناوں گی
میں اپنے ماضی کی اک یاد پھر دھراؤں گی
اپنی بیٹی کو نہ سہی اسکی بیٹی کو پڑھاؤں گی
اک امید کا دیا اپنے دل میں پھر جلاؤں گی
سمجھے نہ دنیا کہ میں ہار مان جاؤں گی