آ جاؤ کہ دل بہت ُاداس ہے
غور سے دیکھو تو میرے لفظ
میرے لبوں کے پاس ہیں
سمندر پے چل رہی ہوں ایک پتھر پے
اور اک پتھر دل پے
غزل لکھنے کا اشتیاق ہے
چاند بھی ُاتر آیا ہے پانی میں
اور ہواؤں میں انجانا احساس ہے
تیرا نام لیا تو چہرے پے
بارش کہاں سے آگئی ؟
لگتا ہیں میری آنکھوں کو بھی
تم سے بہت پیار ہے
سوچا تھا کہ تجھے فون ہی کر لوں مگر
دل اور بھج سا گیا جب دیکھا
آج میرے موبایل میں نہیں کوئی کاڈ ہے
اک ہوا کا جھونکا مجھے
سمندر کے اور قریب لے گیا
جہاں ریت نکلتی تھی پاؤں سے
اور کوئی سہارا بھی ساتھ نہیں ہے