اگر ہواؤں کی سازش کا احتمال نہیں
سحر سے پہلے چراغوں کو پھر زوال نہیں
ہر اک شاخ ہے مدہوش سبز پتوں میں
خزاں رتوں کا کسی پیڑ کو خیال نہیں
میں کس طرح تجھے تعظیم دوں عدالت میں
کہ تیرے چہرے پہ انصاف کا جلال نہیں
توُ مستحق ہی نہیں میرے ساتھ چلنے کا
کہ تیرے زادِ سفر میں انا کی ڈھال نہیں
ہمارے بیٹوں کو وہ قتل کر نہیں سکتا
ہم اُس کے شہر کر باسی ہیں یرغمال نہیں