ایسا مکتب بھی کوئی بنایا جاۓ
سلیقہ محبت کا جہاں سکھایا جاۓ
کس قدر تلخ ہے محبت میں دھوکہ کھانا
تم کہتے ہو اب بھی مسکرایا جاۓ
ضبط نے سنبھال رکھا ہے آنکھ کا پانی
کب تلک خود کو مگر آزمایا جاۓ
بھٹکے تیری گلی کے کہاں تک پہنچے
حال ان کا بھی ذرا سنایا جاۓ
اچھا لگتا ہے تیرے دست ء دعا میں رہنا
مگر یہ کیا کہ اجاڑ کر بسایا جاۓ
کیا یہ ممکن نہیں اے دوست کہ اب بھے
روٹھی بہاروں کو پھر منایا جاۓ
دل ہے مصر اب بھی اسی پر عنبر
چاہا جاۓ اسے اپنا بنایا جاۓ