ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی
ضعف قویٰ نے آمد پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی
سر میں وہ انتظار کا سودا نہیں رہا
دل پر وہ دھڑکنوں کی حکومت نہیں رہی
کمزوریٔ نگاہ نے سنجیدہ کر دیا
جلووں سے چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں رہی
ہاتھوں سے انتقام لیا ارتعاش نے
دامان یار سے کوئی نسبت نہیں رہی
پیہم طواف کوچۂ جاناں کے دن گئے
پیروں میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رہی
چہرے کو جھریوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی
اللہ جانے موت کہاں مر گئی خمارؔ
اب مجھ کو زندگی کی ضرورت نہیں رہی