اے دوست مدتوں سے مجھے تڑپا رہا ہے کیوں
راکھ تو پہلے ہی ہو چکا ہوں پھر جلا رہا ہے کیوں
سوچیں تو یہ تھیں کہ واپس کبھی لوٹ ہی آئے گا
تو پھر اب میرے دل پر نیا زخم سجا رہا ہے کیوں
میں تو خود کو وفا شھنشاہ سمجھتا تھا
لیکن تہمت بے وفائی کی مجھ پر لگا رہا ہے کیوں
زمانے میں کبھی تو میرے ہاتھوں میں ہاتھ تھا تیرا
اب غیروں کے ہاتھوں میں ہاتھ دیکھا رہا ھے کیوں
کبھی خود بے چین ھوتا تھا مجھ سے ملنے آؤ
آج میں ملنے آیا ہوں تو مجھے ٹھکرا رہا ہے کیوں
تیرا وعدا تھا تجھے اپنے ہاتھ سے دفناؤں گا میں
آیا ہے یار سامنے تو پھر جا رہا ہے کیوں