تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
بَتارہے ہو مسرّت اُدھار لے لی ہے
یہ کہہ رہے ہو کہ اے پاپیادہ حیوانو!
بُلند مرتبہ مخلوق ہوگیا ہوں میں
کہ میں نے بینک سے قسطوں پہ کار لے لی ہے
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
کہ جیسے قصر شہنشاہ میں کنیز کا رقص
کہ جیسے دستِ جفا جُو میں تازیانہ ہو
کہ جیسے مے کشی مدہوش ہوکے ناچ اُٹھّے
یا دستِ تیغ زنی دائرے بناتا ہو
تمھاری گھومتی انگلی میں جُھومتی چابی
ہمارے بَس کے سفر کا مذاق اُڑاتی ہے
سفر کی مشکلیں کچھ اور یہ بڑھاتی ہے
ہوا میں ناچ کے جب دائرے بناتی ہے
ہماری جُہد کی تصویر یہ دکھاتی ہے