زندگی سے بہت مایوس ہو گئی ہوں
اک بچے کی طرح نادان ہو گئی ہوں
ہر سورج نکتا ہے ُامید لے کر
لیکن شام ڈھلتے ہی بے ایمان ہوگئی ہوں
میں آٹھ سال سے کس سزا میں ہوں
اپنے حالات پر خود پریشان ہو گئی ہوں
میری سوچیں میرا بچپن کیا تھا آخر
آج سوچتی ہوں تو حیران ہو گئی ہوں
کہاں ڈھونڈو اب وہ لڑکی نہیں ملتی
بہت مشکل سا امتحان ہو گئی ہوں
ساحل کنارے پر چلنے کا کبھی شوق تھا مجھے
اب تو طوفانوں کی میزبان ہو گئی ہوں
منزل کے سامنے ُاس نے کہا اب راستہ بدلتے ہیں
ُاس کے منہ سے سنتے ہی بے زبان ہوگئی ہوں
میرا صبر میری کوشیش کیا رائے گاہ چلی گئی
میں اپنی نظر میں خود ہی پیشمان ہو گئی ہوں