ایک حرف آگہی اور میں
ایک حرف بے خودی اور تم
ایک لفظ میں لمبی داستاں
ایک جاں اور اتنے سارے غم
سوچتے ہیں جائیں اب کہاں
سارے رستے ہو گئے ہیں گم
حرف آخر اور حرف ابتداء
بیچ کی باتیں سبھی ختم
جب سے دل میں درد ہے رہنے لگا
دل کے خانے ہو گئے ششم
جتنا چاہو درد مجھ سے بانٹ لو
دل میں جگہ اب نہیں کچھ کم
جب سے میری روح فرقاں ہو گئی
کیا کہیں کیسے ہیں زندہ ہم
خواہشیں سب ہو گئی مسمار ہیں
سارے ارماں توڑ گئے دم
آبیاری آنکھوں سے ہو جائے گی
دل میں پھر سے ڈالئے آرزوئے تخم
ایک حرف آگہی اور میں
ایک حرف بے خودی اور تم