بے قراری ہے بہت رات کی پہنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے رہی ہے ویراں
اب تو کچھ اور سسکنے لگے میرے ارماں
جانے کس جرم کی بے نام سزا پائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
میں اکیلا ہوں یہاں کوئی بھی ہمراز نہیں
خامشی اتنی ہے پتوں کی بھی آواز نہیں
ایسے میں دور سے اک تیری صدا آئی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
آج بھی میرے تصور میں چلی آتی ہو
اپنی زلفوں سے مری سانسوں کو مہکاتی ہو
اب تو آ جاؤ مری جان پہ بن آئی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
منتظر ہوں ترے قدموں کی میں آہٹ سن لوں
ان کی خاطر میں مہکتے ہوئے غنچے چن لوں
سارے گلشن میں ترے حسن کی رعنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
تو جو آ جائے تو مجھ پہ یہ اداسی نہ رہے
کھل اٹھے دل کا چمن روح بھی پیاسی نہ رہے
تیرے بن میری امنگوں پہ خزاں چھائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
دھڑکنیں تجھ کو بلاتی ہیں مری جاں آ جا
اب تو حسرت میں بدلنے لگے ارماں آ جا
میری محبوب ہے یا تو کوئی ہرجائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
رات کہتی ہے مجھے لوٹ کے اب گھر جاؤ
اس ویرانے میں ٹھٹھر کے نہ کہیں مر جاؤ
میری وحشت مجھے کس راہ پہ لے ائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے
بے قراری ہے بہت رات کی پہنائی ہے
ایک سناٹا ہے اور عالم تنہائی ہے