گم صم ہوا آواز کا دریا تھا جو اک شخص
پتھر بھی نہیں اب وہ ستارہ تھا جو اک شخص
شاید وہ کبھی حرف دعا ڈھونڈ رہا تھا
چہروں کو بڑی غور سے پڑھتا تھا جو اک شخص
ہاتھوں میں چھپائے ہوئے پھرتا ہے کئی زخم
شیشے کے کھلونوں سے بہلتا تھا جو اک شخص
اب آخری سطروں میں کہیں نام ہے اس کا
احباب کی فہرست میں پہلا تھا جو اک شخص