ایک صورت ابھی رہتی ہے سنورنے والی
اور یہ فصل بہاراں ہے گزرنے والی
لمحہ بھر ہے یہ گل و نغمہ و خوشبو کا فریب
پھر یہ ترتیب گلستاں ہے بکھرنے والی
اب بھلا کیسے غم دل کا مداوا ہو گا
اب تو یہ وصل کی خواہش بھی ہے مرنے والی
ہم کو کافی ہے بس اک حسرت تعمیر یہی
خاک_ آئندہ کی صورت گری کرنے والی
اب مری چشم تمنا ہی کوئی خواب دکھائے
مہر و مہ سے تو نہیں رات نکھرنے والی
ہم نے چاہا تھا کہ یہ ساعت تسکیں ٹھہرے
پر کہاں گردش دوراں ہے ٹھہرنے والی
پوچھتا تھا سرمحفل کوئی غیروں سے صہیب
یہ غزل کس کی ہے یوں دل میں اترنےوالی