بس دھواں ہی دھواں
سچ کا چہرہ نہیں
نہ ہی پہچان ہے
بس گماں ہی گماں
لفظ سیال ہیں
جس بھی پیکر میں ڈھالو گے ڈھل جائیں گے
ہر حقیقت کے تیور بدل جائیں گے
آنکھ کی پُتلیوں میں اُترتے مناظر فقط وہم ہیں
جن کو ان پہ یقیں، قابلِ رحم ہیں
ہر نظر ایک خالق
نظارہ محض خواہشوں آرزوؤں کی تخلیق ہے
معتبر کوئی جذبہ نہ احساس ہے
مستند ہوسکا ہے کوئی خواب کب
دل کسے راس آیا، کسے راس ہے
آدمی بس ذہن، معدہ اور دست وپا
دل تو بکواس ہے
روح پر کیا بحث
غور کیوں کیجیے، ہوں سوالات کیا
اس کی وقعت کوئی؟ اس کی اوقات کیا
ضابطے، قاعدے، منطقیں اور بدن
بس یہی ہے ترے آدمی کا شرف!
زندگی کا شرف
جسم، سانسیں سلامت
خوشی رائیگاں
زندگی رائیگاں
تیری پھونکی ہوئی روح بھی رائیگاں
یہ تو تمہید تھی
رات کے ساتھ جو ذات کے شور میں
پھیلتی ہی گئی
جانے کہنا تھا کیا
یاد آتا نہیں
چھوڑیے، پھر سہی