ایک کہانی ختم ہوئی ہے ایک کہانی باقی ہے
میں بے شک مسمار ہوں لیکن میرا ثانی باقی ہے
دشت جنوں کی خاک اڑانے والوں کی ہمت دیکھو
ٹوٹ چکے ہیں اندر سے لیکن من مانی باقی ہے
ہاتھ مرے پتوار بنے ہیں اور لہریں کشتی میری
زور ہوا کا قائم ہے دریا کی روانی باقی ہے
گاہے گاہے اب بھی چلے جاتے ہیں ہم اس کوچے میں
ذہن بزرگی اوڑھ چکا دل کی نادانی باقی ہے
کچھ غزلیں ان زلفوں پر ہیں کچھ غزلیں ان آنکھوں پر
جانے والے دوست کی اب اک یہی نشانی باقی ہے
نئی نئی آوازیں ابھریں پاشیؔ اور پھر ڈوب گئیں
شہر سخن میں لیکن اک آواز پرانی باقی ہے