ایک ہو جاﺅ تم، ایک ہو جاﺅ تم....
Poet: Mudassar Faizi By: Mudassar Faizi, Lahoreشہید بچے کا پیغام
میری منزل شہادت تھی اے دوستو!
مجھ کو منزل مری مل گئی آج ہی
روشنی ہے یہاں
خوشبوئیں ہیں یہاں
یاں فرشتوں کی گودوں میں جھولے بھی ہیں
حوریں ہم کو سناتی ہیں اب لوریاں
سارے سنگی بھی ہیں، سارے ساتھی بھی ہیں
اتنی جلدی ملے گی یہ منزل مجھے
ایسا سوچا نہ تھا
پھر بھی اچھا ہوا
سوچتا ہوں میں اب
گر یہی سلسلہ، یوں ہی چلتا رہا
اور ہوتا یہی میرے بچوں کے ساتھ
کس طرح بلکتا
کس طرح رنج اور دکھ پہنچتا مجھے
کیسے سہتا میں پھر؟
کس طرح صبر کرتا میرے دوستو؟
میں تو چل ہی دیا
اب یہ سوچو سبھی
کیسے بچوں کو اپنے بچاﺅ گے تم؟
کیسے آنگن میں کلیاں کھلاﺅ گے تم؟
کس طرح اس وطن کو
چلاﺅ گے تم؟
گر یہی ریت چلنی ہے اس دیس میں
ایسے ہی راہزن، قاتلان وطن
رہبروں کے اگر ہوں گے وہ بھیس میں
یوں ہی چلتا رہا تو سنو دوستو!
کون پھر اس وطن کو سنوارے گا کہ
کوئی ماں نہ روئے
نہ کوئی باپ غمگین ہو اس طرح
نہ ہی تڑپے کوئی
نہ لہو رنگ ہو اس وطن کی فضائ
گر بچانا ہے ایسے کسی کام سے
تو کرو پھر شروع
اللہ کے نام سے
تھام لو سب کے سب
ایک ہی جھنڈے کو
جھنڈا میرے وطن کا مرے دوستو
جس کی خاطر
مرے سارے ساتھی چلے
جس کی عزت ہمیں جاں سے بھی پیاری تھی
جس کی حرمت و توقیر کے واسطے
ان گنت
ماﺅں بہنوں نے قربانی دی
یہ وہ جھنڈا ہے جو
اونچا رکھنا ہے تم کو کسی بھی طرح
ہے امانت ان لاکھوں شہیدوں کی جو
اس وطن کے لئے
اپنی جاں سے گئے
چھوڑ دو تم غلامی اب اغیار کی
توڑ دو سب بتوں کو
اور بس تھام لو
ایک اللہ کی رسی جو لازم بھی ہے
ایک ہو جاﺅ بس!
اور پہچان لو
کون ہیں دشمنان وطن دوستو!
جب یہ پہچان لو، ان کو تم جان لو
ایک وعدہ کرو
ان کو چھوڑو گے ہرگز نہیں دوستو
میرا بدلہ بھی لینا ہے ان سے تمہیں
میرے سب دوستوں کو بھلانا نہیں
اب یہ وعدہ کرو
رنگ، نسل، فرقہ اور نہ زباں کے لئے
چھوڑو لڑنا جھگڑنا خدا کے لئے
ایک ہو کے
مقابل کو تم روند دو
ایک ہوجاﺅ تم، ایک ہو جاﺅ تم
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







