اے جانِ غزل، اے جانِ وفا ہم تجھ کو ہردم یاد کریں
میری پلکوں پہ ٹھہرے آنسو تجھ سے وصل کی فریاد کریں
کبھی ہنستے ہیں ،کبھی روتے ہیں، تیرے ہجرِ طویل میں
تیری وفا پر یقین کرنے کو ہم نئے بہانے ایجاد کریں
تیرا غم سے سامنا ہو اگر، کیسے دلِ شکستہ سہے یہ
رہتے ہیں اسی فکر میں ہم، کیسے تجھ کو شاد کریں
وہ کہتے ہیں بے دخل کر دیں اُنکو کو ہم اپنے دل سے
کوئی اُن سے پوچھے کیسے اپنے دل کو ہم برباد کریں
اس زمانے کے ظلم و جبر کو کیونکر روک سکوں ہوں جوہر
محبت دیتی ہے اختیار اُن کو کہ وہ ہم پہ اسبتداد کریں