اے خدائے جہاں دہائی ہے
اآج اُس شوخ کی ودائی ہے
ہم جسے سوچنے سے ڈرتے تھے
وہ مقدر میں گھڑی آئی ہے
اُس کے دستِ حنا کی خوش بُو نے
دل میں اِک آگ سی لگائی ہے
اُس طرف بج رہی ہے شہنائی
اِس طرف جاں لبوں پہ آئی ہے
کیا ترے پاس دل نہیں قاصد
یہ خبر کس لیے سنائی ہے
وہ تو گھر بھی بسا چکا بابر
آنکھ راہوں میں کیوں بچھائی ہے