ہر سمت بکھری پڑی ہیں لاشیں
مردہ ہو گئی ہیں سب خواہشیں
روٹی کی جگہ گولیاں کھانے کو ملتی ہیں
لکڑی کے طور پر ہماری ہڈیاں جلتی ہیں
اے خدا تیری نگری میں ہم کیسے آزاد ٹھہرے
کہ سونے جاگنے پر بھی لگ گئے ہیں پہرے
بیٹے ، بیٹیاں اپنی جنتوں سے محروم ہو رہے ہیں
بے گناہ ہر لمحہ مظلوم ہو رہے ہیں
ظلم و ستم کے حکمران گھس گئے ہیں یہاں
بوند بوند کے لیے بچے ترس گئے ہیں یہاں
ہمارے گھروں کی دیواریں گرائی جا رہی ہیں
با پردہ عورتوں کی قبائیں اٹھائی جا رہی ہیں
خون کی نہریں جاری ہیں ہر طرف
خوف کے طوفان طاری ہیں ہر طرف
اپنی جان کا امان کس سے مانگیں
جب تو ہی نہیں سنتا جس سے ما نگیں
لطف بجھ سا گیا ہے عید میلوں کا
ہماری وادی میں سماں ہے جیلوں کا
امتیاز ہر جاں پہ اک قیامت ٹوٹتی ہے ہر گھڑی
یہاں بارش کیطرح لگتی ہے خون سے جھڑی