جاگتی آنکھوں میں یوں خواب آتے ہیں
جیسے سامنے زندگی کے عذاب آتے ہیں
چہرے پہ لگائے ہوئے روایات کا غازہ
بہت سے چہرے اب بے نقاب آتے ہیں
پہلے تو خط ہوتے تھے آدھی ملاقات
اب خطوں میں بھی صرف آداب آتے ہیں
دم گھٹ کر مر جاتی ہے جب کوئی خواہش
میری آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب آتے ہیں
اے خدا میری منزل کو سلامت رکھنا
میرے رستے میں سوکھے ہوئے گلاب آتے ہیں
عثمان دل وہ درویش ہے کہ نظر اٹھاتا ہی نہیں
ورنہ اس کے در پہ تو سو احباب آتے ہیں