اے دلِ بے قرار ضِد نہ کر
پیش ہے انتظار ضِد نہ کر
ہر برس ہے بہار کی مدت
پھر سے آئیگی یار ضد نہ کر
وسوسے مان نہ برے ورنہ
خوف ڈالے گا مار ضد نہ کر
نام لکھنا کوئی کلائی پر
یہ بھی ہے اشتہار ضد نہ کر
مانگ تیری کہاں سے پوری ہو
چھن گئے اختیار ضد نہ کر
کیا ہوا وقت اگر بدلا ہے
کر میرا اعتبار ضد نہ کر
آج ہے سر پہ تاج عزت کا
آج سر پہ سوار ضد نہ کر
فصل گوہر ہے ہا تھ خالی کر
کر کہ کام کار ضد نہ کر