اے ضبط! دیکھ عشق کی اُن کو خبر نہ ہو
دل میں ہزار درد اُٹھے، آنکھ تر نہ ہو
مدّت میں شامِ وصل ہوئی ہے مجھے نصیب
دو چار سو برس تو الہٰی! سحر نہ ہو
اِک پھول ہے گلاب کا آج اُنکے ہاتھ میں
دھڑکا مجھے یہ ہے کہ کسی کا جگر نہ ہو
ڈھونڈے سے بھی نہ معنئ باریک جب ملا
دھوکہ ہوا یہ مجھ کو کہ اُس کی کمر نہ ہو
فرقت میں یاں سیاہ زمانہ ہے مجھ کو کیا
گردوں پہ آفتاب نہ ہو یا قمر نہ ہو
دیکھی جو صورتِ ملک الموت نزع میں
میں خوش ہوا کہ یار کا یہ نامہ بر نہ ہو
آنکھیں ملیں ہیں اشک بہانے کے واسطے
بیکار ہے صدف جو صدف میں گُہر نہ ہو
الفت کی کیا اُمید وہ ایسا ہے بے وفا
صحبت ہزار سال رہے، کچھ اثر نہ ہو
طولِ شب وصال ہو، مثلِ شبِ فراق
نکلے نہ آفتاب، الٰہی! سحر نہ ہو
منہ پھیر کر کہا جو کہا میں نے حالِ دل
چُپ بھی رہو امیرا! مجھے دردِ سر نہ ہوا