اور کچھ نہیں مانگتا تجھ سے اے میری عمر رواں
وہ میرا لڑکپن وہ میرے گاؤں کی گلیاں مجھے لادے
جانتا ہوں نہیں لوٹا سکے گی تو میرا گزرا ہوا وقت مگر
وہ جو دوستی میں خلوص تھا وہ کہیں سے لا دے
اس دولت کی چاہ میں ان ناکام خواہشوں کی راہ میں
جو چھوٹ گیا ہے کہیں مجھ سے وہ سکون لا دے
یوں تو بہت کچھ ملا ہے دیار غیر میں مجھے ڈار مگر
جسے میں جاں سے عزیز تھا وہ یار کہیں سے لا دے